ضرور پاؤں میں اپنے حنا وہ مل کے چلے

غزل| ریاضؔ خیر آبادی انتخاب| بزم سخن

ضرور پاؤں میں اپنے حنا وہ مل کے چلے
نہ پہنچے آج بھی گھر تک مرے وہ کل کے چلے
یہ دوستی ہے کہ ہے ساتھ آگ پانی کا
جو نکلی آہ تو ساتھ اشک بھی نکل کے چلے
لحد سے لائی قیامت ہے پاؤں پڑ پڑ کر
ٹھہر ٹھہر کے چلے ہم مچل مچل کے چلے
ہزاروں ٹھوکریں ہر اک قدم پر اس میں ہیں
یہ راہِ عشق ہے کیوں کر کوئی سنبھل کے چلے
یہ مجھ کو وصل کی شب ہائے موت کیوں آئی
حنا لگا کے جو آئے تھے ہاتھ مل کے چلے
تمہاری راہ میں چلنے کی ہے خوشی ایسی
کہ ساتھ نقشِ قدم بھی اچھل اچھل کے چلے
مزا تو آئے جو لیں رند بڑھ کے ہاتھوں ہاتھ
مزا تو آئے کہیں سے جو مے ابل کے چلے
ادا سے ناز سے چلنا قیامت ان کا تھا
جو مل کے دل کو کلیجے مسل مسل کے چلے
چلے وہ شمع جلانے مزار پر کس کے
کہ ساتھ ساتھ عدو آگ ہو کے جل کے چلے
تمہارے گیسو پرپیچ نے لیا ہم کو
کہ منہ میں سانپ کے یا منہ میں ہم اجل کے چلے
اٹھا جنازہ تو بولی یہ خانہ‌ بربادی
نیا مکان ہے کپڑے نئے بدل کے چلے
ہزاروں داغ ہیں دل میں جگر میں لاکھوں زخم
ریاضؔ محفل خوباں سے پھول پھل کے چلے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام