آئے ہیں کس ادا سے دو پٹّہ سنبھال کے

غزل| ریاضؔ خیر آبادی انتخاب| بزم سخن

آئے ہیں کس ادا سے دو پٹّہ سنبھال کے
سنجیدگی سے دوش پر آنچل وہ ڈال کے
سو جان سے نثار میں روزِ وصال کے
وہ کہہ رہے ہیں دن یہ برابر ہے سال کے
آنچل ڈھلا رہا مرے مستِ شباب کا
اوڑھا گیا کبھی نہ دوپٹّہ سنبھال کے
او زلفوں والے حشر سے کچھ دل لگی نہیں
عقدے کھلیں گے آج یہاں بال بال کے
ان پیاری پیاری آنکھوں سے اک پیارکی نگاہ
میں صدقے ذبح کہ مری حسرت نکال کے
وہ کہہ رہے ہیں اشک کو میرے لہو کی بوند
آنکھوں نے رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے
ہو میکدے کی راہ میں گردش محال ہے
رکھا ہے ہم نے پاؤں بہت ہی سنبھال کے
کیا زہر کی بجھی ہوئی نکلی یہ موجِ اشک
پچھتائے آستین میں ہم سانپ پال کے
بیٹھے ہوئے ہیں ہاتھ دھرے ہاتھ پرریاضؔ
واعظ کے سر پر آج سبو ہم اچھال کے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام