مظلوموں کی آہ و فغاں پر برہم کیوں ہو جاتے ہو

غزل| حفیظؔ میرٹھی انتخاب| بزم سخن

مظلوموں کی آہ و فغاں پر برہم کیوں ہو جاتے ہو
شوق نہیں رونے کا ہم کو تم ہی تو رلواتے ہو
ہم بھی تو انسان ہیں آخر ہم سے یہ نفرت کیسی
سب سے لپٹ کر ملنے والو! ہم سے کیوں کتراتے ہو
ہم سایوں سے ہم وطنوں سے لاشیں پوچھا کرتی ہیں
پیار کی باتیں کرنے والو! قاتل کیوں بن جاتے ہو
پیتے تھے جب تک پیتے تھے چھوڑی تو بس چھوڑ ہی دی
تم بھی بہکنا چھوڑو یارو ہم کو کیوں بہکاتے ہو
ہم توجذباتی ٹھہرے اپنی کہو دانش مندو!
ٹھیس انا کو جب لگتی ہے تم پاگل ہو جاتے ہو
ہم نے تمھارے ہاتھوں سے بھی سر پہ کفن بندھوایا تھا
تم بھی سرخ سویرے والو! درباری ہوجاتے ہو

کومل کومل غزلوں میں طوفانوں کے پیغام حفیظؔ
میٹھی میٹھی باتوں سے بھی تم تو آگ لگاتے ہو


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام