بارش ہوگی تو بارش میں دونوں مل کر بھیگیں گے

غزل| غیاث متینؔ انتخاب| بزم سخن

بارش ہوگی تو بارش میں دونوں مل کر بھیگیں گے
ریت پہ ایک مسافر کا گھر اور سمندر بھیگیں گے
اچھا میں ہارا تم جیتے آگے کی اک بات سنو
اب کے برس جب بارش ہوگی سوچ سمجھ کر بھیگیں گے
اچھے لوگوں کی بستی میں تم کیوں رہنے آئے ہو
یاں ہونٹوں پہ پھول کھلیں گے خون میں خنجر بھیگیں گے
اک ہلکی سی چوٹ پہ میری آنکھیں بھر بھر آئیں گی
جیسے شبنم کے قطروں سے تتلی کے پر بھیگیں گے
دھوپ کا اک ٹکڑا کیوں میرے سر پر سایہ کرتا ہے
کیا مجھ کو منظر سے ہٹا کر سارے منظر بھیگیں گے
اُس دن کی جب بارش ہوگی کون بچے گا ہم سفرو
پھول پرند چراغ جزیرے کنکر پتھر بھیگیں گے

اک فانوس ہے جس میں اپنی روح متینؔ سلگتی ہے
بھیگنا جب ٹہرا تو اُسی فانوس کے اندر بھیگیں گے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام