اکیلا گھر ہے کیوں رہتے ہو کیا دیتی ہیں دیواریں

غزل| غیاث متینؔ انتخاب| بزم سخن

اکیلا گھر ہے کیوں رہتے ہو کیا دیتی ہیں دیواریں
یہاں تو ہنسنے والوں کو رُلا دیتی ہیں دیواریں
اِنھیں بھی اپنی تنہائی کا جب احساس ہوتا ہے
تو گہری نیند سے مجھ کو جگا دیتی ہیں دیواریں
بُجھے ماضی کا کھلتے حال سے رشتہ عجب دیکھا
کھنڈر خاموش ہیں لیکن صَدا دیتی ہیں دیواریں
ہَوا کے زخم سہہ کر بارشوں کی چوٹ کھا کھا کر
چھتوں کو روزنوں کو آسرا دیتی ہیں دیواریں
رہوں گھر میں تو میرے سر پہ چادر تان دیتی ہیں
سفر پر جب نکلتا ہوں دُعا دیتی ہیں دیواریں
جو چلنا ہی نہ چاہے روک لیتے ہیں اُسے ذرّے
بگولوں کو سفر میں راستہ دیتی ہیں دیواریں
وہ ساری گفتگو جو بند کمروں ہی میں ہوتی ہے
میں جب باہر سے آتا ہوں سُنا دیتی ہیں دیواریں
اُترتی اور چڑھتی دُھوپ کی پہچان ہے اِن کو
ابھی دِن کتنا باقی ہے بتا دیتی ہیں دیواریں

متینؔ اِس چِلچِلاتی دُھوپ میں سایہ اِنہی سے ہے
میں جب بھی ٹوٹتا ہوں حوصلہ دیتی ہیں دیواریں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام