بربریت سے ہمیں دو چار ہونا تھا ، ہوئے

غزل| عزیزؔ بلگامی انتخاب| بزم سخن

بربریت سے ہمیں دو چار ہونا تھا ، ہوئے
اتنے بے کس اس قدر لاچار ہونا تھا ، ہوئے
بھر گیا دامن ہمارا زیست کی خیرات سے
موت کے در پر ذلیل و خوار ہونا تھا ، ہوئے
مے کدہ کیسا ، کہاں کا جام ، کیسی مے جناب!
تشنگی ہی سے ہمیں بیزار ہونا تھا ، ہوئے
چپ اگر تھے تو خموشی کا تقاضہ تھا یہی
جب امین جرأت اظہار ہونا تھا ، ہوئے
پھر قفس کا در کھلا ہے حق پرستوں کے لئے
کیوں کہ ان کو صاحب کردار ہونا تھا ، ہوئے
چیختے ہیں معرکے کردار کی خاطرعزیزؔ
اور ہم کو غازیٔ گفتار ہونا تھا ، ہوئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام