زندگی پاؤں نہ دھر جانب انجام ابھی

غزل| عدیمؔ ہاشمی انتخاب| بزم سخن

زندگی پاؤں نہ دھر جانب انجام ابھی
مرے ذمے ہیں ادھورے سے کئی کام ابھی
ابھی تازہ ہے بہت گھاؤ بچھڑ جانے کا
گھیر لیتی ہے تری یاد سرِ شام ابھی
اِک نظر اور اِدھر دیکھ مسیحا میرے
ترے بیمار کو آیا نہیں آرام ابھی
رات آئی ہے تو کیا تم تو نہیں آئے ہو
مری قسمت میں کہاں لکھا ہے آرام ابھی
جان دینے میں کروں دیر یہ ممکن ہے کہاں
مجھ تک آیا ہے مری جاں ترا پیغام ابھی
توڑ سکتا ہے مرا دل یہ زمانہ کیسے
میرے سینے میں دھڑکتا ہے ترا نام ابھی
میرے ہاتھوں میں ہے موجود ترے ہاتھ کا لمس
دِل میں برپا ہے اُسی شام کا کہرام ابھی
مری نظریں کریں کیسے ترے چہرے کا طواف
مری آنکھوں نے تو باندھے نہیں احرام ابھی

یاد کے ابر سے آنکھیں مری بھیگی ہیں عدیمؔ
اِک دھندلکا سا ہے بھیگی تو نہیں شام ابھی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام