سلیقے آنے لگے ہیں جو خیر و شر کے مجھے

غزل| انؔیس بھٹکلی انتخاب| بزم سخن

سلیقے آنے لگے ہیں جو خیر و شر کے مجھے
سبق پڑھائے ہیں دنیا نے خشک و تر کے مجھے
مری نگاہوں میں روشن ہے منزلِ مقصود
نہ خار روک سکیں گے رہِ سفر کے مجھے
سلگتی دھوپ ہی محبوب ہے مجھے ورنہ
پکارا کرتے ہیں سایے شجرشجر کے مجھے
میں کام آیا تھا اک روز ان کی سرحد پر
مکیں بھلا نہیں پائے وفا نگر کے مجھے
اگرچہ وہ بھی ہے سورج مگر ہے اپنا سا
تُو چاند ہے تو کبھی دیکھ آنکھ بھر کے مجھے
مری سمجھ سے تو دنیا ہے مطمئن لیکن
مکیں سمجھ نہیں پائے مرے ہی گھر کے مجھے

حقیقتوں سے مرے ذہن کو ہٹا کے انیسؔ
سنا رہا ہے وہ قصے اِدھر اُدھر کے مجھے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام