مل بھی جاتے ہیں تو کترا کے نکل جاتے ہیں

غزل| والی آسیؔ انتخاب| بزم سخن

مل بھی جاتے ہیں تو کترا کے نکل جاتے ہیں
ہائے موسم کی طرح دوست بدل جاتے ہیں
ہم ابھی تک ہیں گرفتارِ محبت یارو
ٹھوکریں کھا کے سنا تھا کہ سنبھل جاتے ہیں
وہ کبھی اپنی جفا پر نہ ہوا شرمندہ
ہم سمجھتے رہے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں
عمر بھر جن کی وفاوؤں پہ بھروسہ کیجئے
وقت پڑنے پہ وہی لوگ بدل جاتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام