رشتوں کی دھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے

غزل| راحتؔ اندوری انتخاب| بزم سخن

رشتوں کی دھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے
اب تو ہمیں بھی سارے سبق یاد ہو گئے
آبادیوں میں ہوتے ہیں برباد کتنے لوگ
ہم دیکھنے گئے تھے تو برباد ہو گئے
میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ
گیلی زمین کھود کر فرہاد ہو گئے
بیٹھے ہوئے ہیں قیمتی صوفوں پہ بھیڑیے
جنگل کے لوگ شہر میں آباد ہو گئے
لفظوں کے ہیر پھیر کا دھندا بھی خوب ہے
جاہل ہمارے شہر میں استاد ہو گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام