وصل ارزاں وقت کی لیکن فراوانی گئی

غزل| نشترؔ خانقاہی انتخاب| بزم سخن

وصل ارزاں وقت کی لیکن فراوانی گئی
بڑھ گئی جتنی سہولت اتنی آسانی گئی
معصیت کا ذکر کیا ہے معصیت پہلے بھی تھی
رنج تو یہ ہے گناہوں سے پشیمانی گئی
عشق بھی دل سے کیا جوگی بنے وحشت بھی کی
کیا ہوا کچھ تو کہو کہا وضعِ حیوانی گئی
ایک لمبا فاصلہ ہے جان سے پہچان تک
شکل جو جانی گئی وہ بھی نہ پہچانی گئی
پہلے بھی سیلاب آتے تھے مگر کیا اس قدر
اب کے تو برسات میں ہر فصل بارانی گئی
زیرِ لب اک لفظ نے کیسا ہمیں چونکا دیا
پل ہی پل میں خانقاہیؔ سب ہمہ دانی گئی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام