کیوں بیاباں بیاباں بھٹکتا پھرا کیوں پریشاں رہا غم گزیدہ رہا

غزل| نشترؔ خانقاہی انتخاب| بزم سخن

کیوں بیاباں بیاباں بھٹکتا پھرا کیوں پریشاں رہا غم گزیدہ رہا
آج اک نوجواں مجھ سے کہنے لگا قیس پاگل تھا دامن دریدہ رہا
میری راہوں میں گمنام گلیاں بھی تھیں قصرِ یاراں بھی تھا شہرِ اغیار بھی
میں کسی آستانے کا پتھر نہ تھا بوئے گل تھا کہ ہر سو پریدہ رہا
جانے کتنے مسافر یہاں آئے ہیں ان گنت نام ہیں سقف و محراب پر
اک پرانی عمارت کے سائے تلے میں بہت دیر تک آب دیدہ رہا
اجنبی بن کے راتوں کی تنہائی میں مجھ سے میرا پتہ پوچھتے ہی رہے
یہ مرے لب جو برسوں مقفل رہے یہ مرا سر جو صدیوں خمیدہ رہا

تم کتابوں میں محفوظ کر لو مجھے کیا عجب ہے کوئی پڑھنے والا ملے
میں وہ آواز ہوں جس کا سامع نہیں میں وہ لہجہ ہوں جو ناشنیدہ رہا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام