انتظامات نئے سر سے سنبھالے جائیں

غزل| راحتؔ اندوری انتخاب| بزم سخن

انتظامات نئے سر سے سنبھالے جائیں
جتنے کم ظرف ہیں محفل سے نکالے جائیں
مرا گھر آگ کی لپٹوں میں چھپا ہے لیکن
جب مزا ہے ترے آنگن میں اجالے جائیں
غم سلامت ہے تو پیتے ہی رہیں گے لیکن
پہلے میخانے کے حالات سنبھالے جائیں
خالی وقتوں میں کہیں بیٹھ کے رو لیں یارو
فرصتیں ہیں تو سمندر ہی کھنگالے جائیں
خاک میں یوں نہ ملا ضبط کی توہین نہ کر
یہ وہ آنسو ہیں جو دنیا کو بہا لے جائیں
ہم بھی پیاسے ہیں یہ احساس تو ہو ساقی کو
خالی شیشے ہی ہواوؤں میں اچھالے جائیں
آؤ بستی میں نئے دوست بنائیں راحتؔ
آستینوں میں چلو سانپ ہی پالے جائیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام