اگر مرتے ہوئے لب پر نہ تیرا نام آئے گا

غزل| شادؔ عظیم آبادی انتخاب| بزم سخن

اگر مرتے ہوئے لب پر نہ تیرا نام آئے گا
تو میں مرنے سے درگزرا مرے کس کام آئے گا
شبِ ہجراں کی سختی ہو تو ہو لیکن یہ کیا کم ہے
کہ لب پر رات بھر رہ رہ کے تیرا نام آئے گا
کہاں سے لاؤں صبرِ حضرتِ ایوب ائے ساقی!
خُم آئے گا صراحی آئے گی تب جام آئے گا
اسی امید میں باندھے ہوئے ہیں ٹکٹکی مے کش
کفِ نازک پہ ساقی رکھ کے اک دن جام آئے گا
یہاں دل پر بنی ہے تجھ سے ائے غم خوار کیا الجھوں
یہ کون آرام ہے مر جاؤں تب آرام آئے گا
انہیں دیکھے گی تو اے چشمِ پرنم وصل میں یا میں
ترے کام آئے گا رونا کہ میرے کام آئے گا
یہی کہہ کر اجل کو قرض خواہوں کی طرح ٹالا
کہ لے کر آج قاصد یار کا پیغام آئے گا
گلی میں یار کی ائے شادؔ سب مشتاق بیٹھے ہیں
خدا جانے وہاں سے حکم کس کے نام آئے گا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام