یہ دل جمعی جئے جب تک جئے جینا اسی کا ہے

غزل| شادؔ عظیم آبادی انتخاب| بزم سخن

یہ دل جمعی جئے جب تک جئے جینا اسی کا ہے
پئے جو سیر ہو کے رات دن پینا اسی کا ہے
نگہ کی برچھیاں جو سہہ سکے سینہ اسی کا ہے
ہمارا آپ کا جینا نہیں جینا اسی کا ہے
تصور اُس رخِ صافی کا رکھ مدِّ نظر ناداں
لگائے منہ جو آئینے کو آئینہ اسی کا ہے
یہ بزمِ مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
کدر ہو یا کہ صافی سب کو پی کر مست ہو جائے
یہ ہم رندوں کا پینا کچھ نہیں پینا اسی کا ہے
تماشا دیکھنا غیروں کے گھر کو پھونک کر کیسا
جو اپنی آگ میں جل جائے خود کینہ اسی کا ہے
فضائے دہر میں یہ سیر گہ جس نے بنا دی ہے
تماشائی جہاں میں دیدۂ بینا اسی کا ہے
بسر ہو میکدے میں پنج شنبہ بیٹھ کر جس کا
جو مے نوشی میں کر دے صبح آدینہ اسی کا ہے
امیدیں جب بڑھیں حد سے طلسمی سانپ ہیں ناصح
جو توڑے یہ طلسم اے دوست گنجینہ اسی کا ہے
مبارک ہیں یہ سب راتیں جو پینے میں کٹیں رندو
گزارے یوں جو شب ہفتے کی آدینہ اسی کا ہے
خدا لگتی کہے اے شادؔ جو اس پیر کے حق میں
یقیں سمجھو دعا گو بھی یہ دیرینہ اسی کا ہے
کدورت سے دل اپنا صاف رکھو شادؔ پیری ہے
کہ جس کو منہ دکھانا ہے یہ آئینہ اسی کا ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام