سراپا سوز ہے اے دل سراپا نور ہو جانا

غزل| شادؔ عظیم آبادی انتخاب| بزم سخن

سراپا سوز ہے اے دل سراپا نور ہو جانا
اگر جلنا تو جل کر جلوہ گاہِ طور ہو جانا
ستم ہے آدمی کے واسطے مجبور ہو جانا
زمیں کا سخت ہو جانا فلک کا دور ہو جانا
ہمارے زخمِ دل نے دل لگی اچھی نکالی ہے
چھپائے سے تو چھپ جانا مگر ناسور ہو جانا
جو میں ایسا سمجھتا کچھ تو کرتا فکر جینے کی
مرا مرنا نہ مرنا آپ کا مشہور ہو جانا
خیالِ وصل کو اب آرزو جھولے جھلاتی ہے
قریب آنا دلِ مایوس کے پھر دور ہو جانا
نہ دے االزام بد مستی کا اک افتاد تھی ساقی
مرا گرنا بھرے ساغر کا چکنا چور ہو جانا
ہوئی مدت کہ بوئے گل کے سونگھے کو ترستے ہیں
ادھر سے اے نسیمِ صبح تا مقدور ہو جانا
شبِ وصل اپنی ہی آنکھوں سے یہ اندھیر بھی دیکھا
نقاب ان کا الٹنا رات کا کافور ہو جانا
خدا کی نعمتوں کا ہے امانت دار یہ انساں
ستم ہے دوسرے کے مال پر مغرور ہو جانا
بلا سے دل اگر رندوں کے توڑے دھیان کیا اس کا
شگونِ نیک ہے شیشے کا ساقی چور ہو جانا
خدا بخشے دکھا کر اک جھلک یوں ہی سی آنکھوں کو
قیامت ہے جوانی کا مری کافور ہو جانا
جو سچ پوچھو تو شادؔ اپنے کئے کچھ بھی نہیں ہوتا
خدا کی دین ہے انسان کا مشہور ہو جانا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام