جھجک اظہارِ ارماں کی بہ آسانی نہیں جاتی

غزل| پنڈت آنند نرائن ملاؔ انتخاب| بزم سخن

جھجک اظہارِ ارماں کی بہ آسانی نہیں جاتی
خود اپنے شوق کی دل سے پشیمانی نہیں جاتی
تڑپ شیشے کے ٹکڑے بھی اڑا لیتے ہیں ہیرے کی
محبت کی نظر جلدی سے پہچانی نہیں جاتی
افق پر نور رہ جاتا ہے سورج ڈوبنے پر بھی
کہ دل بجھ کر بھی نظروں کی درخشانی نہیں جاتی
سوئے دل آ کے اب چشمِ کرم بھی کیا بنا لے گی
شعاع ِمہر سے صحرا کی ویرانی نہیں جاتی
یہ بزمِ دیر و کعبہ ہے نہیں کچھ صحنِ مے خانہ
ذرا آواز گونجی اور پہچانی نہیں جاتی
کسی کے لطفِ بے پایاں نے کچھ یوں سوئے دل دیکھا
کہ اب ناکردہ جرموں کی پشیمانی نہیں جاتی
تغافل پر نہ جا اس کے تغافل ایک دھوکا ہے
نگاہِ دوست کی تحریک پنہانی نہیں جاتی
نظر جھوٹی شباب اندھا وہ حسن اک نقشِ فانی ہے
حقیقت ہے تو ہو لیکن ابھی مانی نہیں جاتی
میسر ہے ہر اک ایماں میں مجھ کو ذوق کا سجدہ
کوئی مذہب بھی ہو بنیادِ انسانی نہیں جاتی
نظر جس کی طرف کر کے نگاہیں پھیر لیتے ہو
قیامت تک پھر اس دل کی پریشانی نہیں جاتی
نہ سمجھو ضبطِ گریہ سے خطا پر میں نہیں نادم
کہ آنسو پونچھ لینے سے پشیمانی نہیں جاتی
نہ پوچھو تجرباتِ زندگانی چوٹ لگتی ہے
نظر اب دوست اور دشمن کی پہچانی نہیں جاتی

زمانہ کروٹوں پر کروٹیں لیتا ہے اور ملاؔ
تری اب تک وہ خواب آور غزل خوانی نہیں جاتی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام