نہ عقل کے کوہِ نور پر ہے نہ دیں کی وادیٔ راز میں ہے

غزل| پنڈت آنند نرائن ملاؔ انتخاب| بزم سخن

نہ عقل کے کوہِ نور پر ہے نہ دیں کی وادیٔ راز میں ہے
بشر کی سب سے جمیل تصویر دل کے سوز و گداز میں ہے
کھڑا ہوں میں پیشِ حسن حیراں ابھی ہیں بے لوث دل کے سجدے
دعا بھی آ جائے گی زباں تک ابھی تمنا نماز میں ہے
وہ نور ہی کیا بلندیوں ہی کو جو فقط زر نگار کر دے
جمالِ خورشید کی حقیقت شعاعِ ذرّہ نواز میں ہے
مریضِ غم کو تسلیوں سے کہیں سوا دے رہا ہے تسکیں
وہ اک چمکتا ہوا سا آنسو جو دیدۂ چارہ ساز میں ہے
لب و گلو میں جو ڈھل نہ پایا جو صوتِ نے میں سما نہ پایا
سرودِ خاموش ایک وہ بھی دلِ شکستہ کے ساز میں ہے
ہزار سجدے کرو میسّر مگر دوبارہ نہیں یہ نعمت
وہ ایک فردوسِ کیف و مستی جو دل کی پہلی نماز میں ہے

فریبِ تحسینِ عام کھا کر سمجھ نہ کانٹوں کو پھول ملاؔ
کہ گل تو در اصل گل وہی ہے جو دامنِ امتیاز میں ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام