جفا صیاد کی اہلِ وفا نے رائیگاں کر دی

غزل| پنڈت آنند نرائن ملاؔ انتخاب| بزم سخن

جفا صیاد کی اہلِ وفا نے رائیگاں کر دی
قفس کی زندگی وقفِ خیالِ آشیاں کر دی
یہ دل کیا ہے کسی کو امتحانِ ظرف لینا تھا
تنِ خاکی میں اک چھوٹی سی چنگاری نہاں کر دی
بھرم حسنِ حقیقت کا کوئی کھلنے نہیں دیتا
نظر جب سامنے آئی تجلی درمیاں کر دی
تِری بے مہریاں آخر وہ نازک وقت لے آئیں
کہ اپنوں کی محبت بھی طبیعت پر گِراں کر دی
اسیر آنکھیں کہاں سے سیرِ گلشن کے لئے لائیں
نظر جتنی بھی تھی صرفِ تلاشِ آشیاں کر دی
خرد کی مدتوں کی محنتوں پر گر پڑی بجلی
کسی نے ہنس کے سوئے دل نظر پھر ناگہاں کر دی
جبیں بے نور ہے میری تو کیا وہ در تو روشن ہے
کرن ہر ایک ماتھے کی نثارِ آستاں کر دی
وہی ہے مردِ رہرو خار زارِ زیست میں جس نے
ذرا آسان تر پہلے سے راہِ کارواں کر دی

وہی اک شامِ الفت حاصلِ ہستیِ ملاؔ ہے
جسے دنیا سمجھتی ہے کہ اس نے رائیگاں کر دی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام