پھر بھی کم تھا گرچہ تیری ذات سے پایا بہت

غزل| جگن ناتھ آزاؔد انتخاب| بزم سخن

پھر بھی کم تھا گرچہ تیری ذات سے پایا بہت
تو ہوا رخصت تو دل کو یہ خیال آیا بہت
سیم و زر کیا شے ہے یہ لعل و گہر کیا چیز ہیں
آنکھ بِینا ہو تو علم و فن کا سرمایا بہت
کیا خبر کیا بات اس کے کفر میں پوشیدہ تھی
ایک کافر کیوں حرم والوں کو یاد آیا بہت
گھر سے اک ویرانیٔ دل لے کے نکلا تھا مگر
کارواں یادوں کے میں دل میں بسا لایا بہت
دیر ہی کی روشنی میرے لئے کافی نہ تھی
میں حرم کا نور بھی دل میں بسا لایا بہت
اس جگہ کھونے کا پانے کا عجب مفہوم ہے
ہم نے آ کر جس جگہ کھویا بہت پایا بہت
ابتدا یہ تھی کہ میں تھا اور دعوی علم کا
انتہا یہ تھی کہ اس دعوے پہ شرمایا بہت
ہائے وہ ہر لمحہ تجھ کو دیکھنے کی آرزو
دل مگر اس آرزو پر آج پچھتایا بہت

یوں تو اے آزادؔ تیرے شعر کے سو رنگ ہیں
مجھ کو لیکن یہ ترا لہجہ پسند آیا بہت


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام