ہوائیں زور سے چلتی تھیں ہنگامہ بلا کا تھا

غزل| راجیندر منچندا بانؔی انتخاب| بزم سخن

ہوائیں زور سے چلتی تھیں ہنگامہ بلا کا تھا
میں سناٹے کا پیکر منتظر تیری صدا کا تھا
وہی ایک موسم سفاک تھا اندر بھی باہر بھی
عجب سازش لہو کی تھی عجب فتنہ ہوا کا تھا
ہم اپنی چپ کو افسوں خانۂ معنی سمجھتے تھے
کہاں دل کو خبر تھی امتحاں حرف و صدا کا تھا
ہمارے دوست بننے کی ضرورت حادثے کی تھی
عجب ایک مرحلہ سا درمیاں میں ابتدا کا تھا
ہم اپنے ذہن میں کیا کیا تعلق اس سے رکھتے تھے
وہاں سارا کرشمہ ایک بے معنی ادا کا تھا
وہاں ٹھنڈی سماعت تھی سمندر کی طرح بانیؔ
یہاں الفاظ پر سایہ کسی بنجر صدا کا تھا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام