جہاں پیڑ پر چار دانے لگے

غزل| ڈاکٹر بشیر بدرؔ انتخاب| بزم سخن

جہاں پیڑ پر چار دانے لگے
وہیں ہر طرف سے نشانے لگے
سویرے کی پہلی کرن دیکھ کر
چراغوں کو ہم خود بجھانے لگے
ہوئی شام یادوں کے اک گاؤں سے
پرندے اُداسی کے آنے لگے
وہیں زرد پتّوں کے اب ڈھیر ہیں
گلوں کے جہاں شامیانے لگے
گھڑی دو گھڑی مجھ کو پلکوں پہ رکھ
یہاں آتے آتے زمانے لگے
ہوا کے حوالے کرو اب مجھے
کہیں یہ تو مٹّی ٹھکانے لگے
مجھے اُس بصارت سے محروم رکھ
جو آنکھوں کی شمعیں بجھانے لگے
کبھی بستیاں دل کی یوں بھی بَسیں
دکانیں کھلیں کارخانے لگے
پڑھائی لکھائی کا موسم کہاں
کتابوں میں خط آنے جانے لگے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام