بہار آئی ہے اب مجھ کو نکل جانا ہے گلشن سے

غزل| وحشتؔ کلکتوی انتخاب| بزم سخن

بہار آئی ہے اب مجھ کو نکل جانا ہے گلشن سے
نگاہِ باغباں ہٹتی نہیں میرے نشیمن سے
پہنچ جاتا ہے اپنا ہاتھ خود اپنے گریباں تک
وہ ہم کو دیکھ کر جب منہ چھپا لیتے ہیں دامن سے
نشیمن میں ہمیں کیا امن کی صورت نظر آئے
دکھائی دے رہا ہو جب قفس شاخِ نشیمن سے
قفس میں ہوں مگر اس پر قناعت کی نہیں جاتی
خیال آتا ہے گلشن کا پیام آتے ہیں گلشن سے
بڑھا کر شوقِ نظارہ بڑھائی حسن کی تابش
لگائے چار چاند اس نے رخِ روشن کو چلمن سے
ترے غمزے لڑا دیں گے مسلماں کو مسلماں سے
ترے عشوے بھڑا دیں گے برہمن کو برہمن سے

ہوا ہے باعثِ تکلیف اب شغلِ سخن وحشتؔ
تعلق قطع کرنا ہی پڑے گا مجھ کو اس فن سے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام