اب وہ رکھتا ہے جدائی کے بہانے کتنے

غزل| ڈاکٹر حنیف شبابؔ انتخاب| بزم سخن

اب وہ رکھتا ہے جدائی کے بہانے کتنے
جس نے دِکھلائے مجھے خواب سہانے کتنے
میرا دم ساز زمانہ ہے ابھی تک لیکن
میں جو گرجاؤں تو آئیں گے اٹھانے کتنے
جب بھی موسم ہو بہاروں کا کھلیں گے یہ بھی
ہاں یہی زخم جو لگتے ہیں پرانے کتنے
میری تعریف نہ کر یوں کہ پتہ ہے مجھ کو
تو سنائے گا مرے بعد فسانے کتنے
ایسا لگتا ہے ہواؤں میں ہے خوشبو اُس کی
جس کو بچھڑے ہوئے گذرے ہیں زمانے کتنے
سرفرازی پہ اکڑنے کا نتیجہ معلوم
سر جھکائے ہیں اسی نرم ہوا نے کتنے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام