کچھ بھی نہ رہا پاس مرے دل نہ جگر ہے

غزل| رشید حسرتؔ انتخاب|

کچھ بھی نہ رہا پاس مرے دل نہ جگر ہے
تھا مجھ کو گماں میری دعاؤں میں اثر ہے
یادوں کے دِیے یوں بھی ضروری مرے دل کو
در پیش گھٹا ٹوپ اندھیروں کا سفر ہے
اس خوف سے ہوں عشق سفر سے ہی گریزاں
رہزن کا  ہے خدشہ بڑی سنسان ڈگر ہے
منزل کے قریب آ کے بھی یہ سوچ رہا ہوں
جاؤں گا کہاں کوئی ٹھکانہ ہے نہ گھر ہے
یہ کس نے کہا تم سے بچھڑ کر ہوں ادھورا
ہے اور سبب آنکھ یہ نمناک اگر ہے
کیا قصّے جوانی کے بیاں تم سے کروں میں
اک ایسی کہانی کہ نہ تو پاؤں نہ سر ہے

تاثیر مری آہِ رسا نے وہ دکھائی
جو حال رشیدؔ اپنا کبھی تھا وہ اُدھر ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام