جانِ جاں کوئی نہ ہو جانِ جہاں کوئی نہ ہو

غزل| رشید حسرتؔ انتخاب|

جانِ جاں کوئی نہ ہو جانِ جہاں کوئی نہ ہو
آہ سینے میں کوئی لب پر فغاں کوئی نہ ہو
آؤ ڈھونڈیں ہم محبّت آؤ ڈھونڈیں آدمی
خاک میں لتھڑا نہیں ہو خونچکاں کوئی نہ ہو
کون سنتا ہے تمہیں اے شاعرِ ناداں کہ جب
کچھ سلیقہ ہی نہ ہو طرزِ بیاں کوئی نہ ہو
ساتھ میرے چل پڑے ہو فرض کرتے ہیں اگر
راہ میں گلشن نہ ہو اور گلستاں کوئی نہ ہو
ہم بھٹکتے پِھر رہے ہوں راستے میں اور کل
کوئی مرقد خانقاہ و آستاں کوئی نہ ہو
آئینے ٹُوٹے ہوئے ہیں اور شکستہ صورتیں
اے مُصوّر جوڑ اِن کو یوں نشاں کوئی نہ ہو
اُس نے یارو پاس رکھے ہیں امانت راز کچھ
ڈر لگا ہے بے خیالی میں عیاں کوئی نہ ہو
ہم نے مانا دل نے پالا تھا کوئی اک پریم روگ
وہ جوانی کیا کہ جِس کی داستاں کوئی نہ ہو

ہر طرف تابانیاں ہیں ہر طرف اک روشنی
ہم جہاں پہنچے وہ حسرتؔ کہکشاں کوئی نہ ہو


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام