چاندنی میں رقص کرتی جھیل پر اتری پری

غزل| شکیل جاذبؔ انتخاب| بزم سخن

چاندنی میں رقص کرتی جھیل پر اتری پری
پھر نہ میں تھا اور نہ پہلو میں مرے بیٹھی پری
میرے دفتر کی مقفل میز میں رکھی بیاض
ایک جن ہے اور اس کی قید میں سہمی پری
فرش پر اس کو گماں ہونے لگا آغوش کا
ماں کے پیکر میں سمٹ کر سو گئی ننھی پری
اب گوارا دیو بھی ہیں صاحبِ ثروت ہوں گر
اب پری زادوں کے چکر میں نہیں پڑتی پری
کل سنا پایا نہ بچوں کو پری کی داستاں
ایک دم یاد آ گئی برسوں سے وہ بھولی پری
تھی ہوا کے دوش پر اک رہزنِ تمکین ہوش
ہم نے بھی جاذبؔ بالآخر جیتے جی دیکھی پری



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام