تمہیں بھول کر جب نہ ہم یاد آئے

غزل| حفیظؔ جونپوری انتخاب| بزم سخن

تمہیں بھول کر جب نہ ہم یاد آئے
ہمیں کیا تمہارا کرم یاد آئے
جہاں کوئی جھرمٹ حسینوں کا دیکھا
وہاں تم خدا کی قسم یاد آئے
گلا رکھ دیا دوڑ کر زیر خنجر
ترے ابروؤں کے جو خم یاد آئے
ہمیں یاد رکھنا ہمیں یاد کرنا
اگر کوئی تازہ ستم یاد آئے
کلیجے کی ہے پھانس کانٹا ہے دل کا
وہ سامان جو مرتے دم یاد آئے
چلو ہوگیا خاتمہ ہچکیوں پر
انھیں ہائے کس وقت ہم یاد آئے
حفیظؔ اس کو کافر کہیں یا مسلماں
حرم میں جسے وہ صنم یاد آئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام