عمر بھر کی چاہتوں کا گوشوارہ ایک تھا

غزل| شکیل جاذبؔ انتخاب| بزم سخن

عمر بھر کی چاہتوں کا گوشوارہ ایک تھا
ہم کسی کے ایک تھے کوئی ہمارا ایک تھا
رنگ خد و خال سائے اور اجالے اب کھلے
تو نہیں تھا جب یہاں منظر ہی سارا ایک تھا
خوفِ ہم رنگی نے ہم کو دور رکھا عمر بھر
مل نہ پائے ہم کبھی اپنا ستارا ایک تھا
اس کی آنکھوں میں جو ڈوبے پھر نہ پار اترے کہیں
ایسا دریا تھا وہاں جس کا کنارا ایک تھا
ہر کسی کے واسطے تو جاں ہتھیلی پر نہیں
جس کی خاطر رایئگانی تھی گوارا ایک تھا
آج بیٹھے کر رہے ہیں ایک اک پل کا حساب
وہ بھی دن تھے جینا اور مرنا ہمارا ایک تھا

یوں سمٹ آئی تھی جاذبؔ ایک پل میں زندگی
ایک تھی سینوں کی دھڑکن دل ہمارا ایک تھا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام