یادِ ماضی فکرِ مستقبل پہ حاوی ہو گئی

غزل| ابن حسؔن بھٹکلی انتخاب| بزم سخن

یادِ ماضی فکرِ مستقبل پہ حاوی ہو گئی
راہ بهی دشوار تهی منزل پہ حاوی ہو گئی
بادلوں کی آڑ میں جیسے ہی سستانے لگا
تیرگی فوراً مہِ کامل پہ حاوی ہو گئی
پھر کبھی حرفِ طلب ہونٹوں سے ٹکرایا نہیں
جب سے غیرت کاسۂ سائل پہ حاوی ہو گئی
ایک اک کر کے سبھی اہلِ زباں رخصت ہوئے
رفتہ رفتہ خامشی محفل پہ حاوی ہو گئی
مشکلیں جتنی تهیں اتنی ہی دعائیں تهیں کہ بس
ہر قدم پر اک دعا مشکل پہ حاوی ہو گئی
وہ محبت جس کا میں قائل نہ تھا ابنِ حسنؔ
عقل حیراں ہے کہ کیسے دل پہ حاوی ہو گئی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام