زاویہ کوئی مقّرر نہیں ہونے پاتا

غزل| محسنؔ بھوپالی انتخاب| بزم سخن

زاویہ کوئی مقّرر نہیں ہونے پاتا
دائمی ایک بھی منظر نہیں ہونے پاتا
عمرِ مصروف کوئی لمحۂ فرصت ہو عطا
میں کبھی خود کو میسّر نہیں ہونے پاتا
آئے دن آتش و آہن سے گزرتا ہے مگر
دل وہ کافر ہے کہ پتھّر نہیں ہونے پاتا
کیا اسے جبرِ مشیّت کی عنایت سمجھوں
جو عمل میرا مقّدر نہیں ہونے پاتا
چشمِ پُر آب سمو لیتی ہے آلام کی گرد
آئینہ دل کا مکدّر نہیں ہونے پاتا
چادرِ عجز گھٹا دیتی ہے قامت میرا
میں کبھی اپنے برابر نہیں ہونے پاتا
فن کے کچھ اور بھی ہوتے ہیں تقاضے محسنؔ
ہر سخن گو تو سخن ور نہیں ہونے پاتا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام