وہ کون ہے دنیا میں جسے غم نہیں ہوتا

غزل| ریاضؔ خیر آبادی انتخاب| بزم سخن

وہ کون ہے دنیا میں جسے غم نہیں ہوتا
کس گھر میں خوشی ہوتی ہے ماتم نہیں ہوتا
ایسے بھی ہیں دنیا میں جنہیں غم نہیں ہوتا
اک غم ہے ہمارا جو کبھی کم نہیں ہوتا
تم جا کے چمن میں گل و بلبل کو تو دیکھو
کیا لطف تہہِ چادرِ شبنم نہیں ہوتا
کیا سرمہ بھری آنکھوں سے آنسو نہیں گرتے
کیا مہندی لگے ہاتھوں سے ماتم نہیں ہوتا
اڑتی تھی وہ شے آتی تھیں جنت کی ہوائیں
اب رندوں کا جمگھٹ سرِ زمزم نہیں ہوتا
یہ جان کے کیوں روئے گا کوئی سرِ تربت
سبزے سے جدا قطرۂ شبنم نہیں ہوتا
یہ شان گدائے درِ میخانہ ہے ساقی
بھولے سے وہ بزم کے وہ جم نہیں ہوتا
مایوس‌ اثر اشکِ عنادل نہیں ہوتے
مانوس اثر گریۂ شبنم نہیں ہوتا
کچھ اور ہی ہوتی ہیں بگڑنے کی ادائیں
بننے میں سنورنے میں یہ عالم نہیں ہوتا
تسکین تو ہو جائے جو تو پھوٹ کے بہہ جائے
یہ تجھ سے بھی اے دیدۂ پرنم نہیں ہوتا
سبزہ مری تربت کا رگِ گل نہیں بلبل
ان آنسوؤں سے تیرے تو یہ نم نہیں ہوتا
مٹتے ہوئے دیکھی ہے عجب حسن کی تصویر
اب کوئی مرے مجھ کو ذرا غم نہیں ہوتا
وہ بھی تو مٹے جانِ جہاں نام تھا جن کا
یہ نظمِ جہاں پھر بھی تو برہم نہیں ہوتا

کچھ بھی ہو ریاضؔ آنکھ میں آتے نہیں آنسو
مجھ کو تو کسی بات کا اب غم نہیں ہوتا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام