غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا​

غزل| محسنؔ بھوپالی انتخاب| بزم سخن

غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا​
وہ شخص لہجہ بڑا دل نشین رکھتا تھا​
ہے تار تار مرے اعتماد کا دامن​
کِسے بتاؤں کہ میں بھی اِمین رکھتا تھا​
اتر گیا ہے رگوں میں مری لہو بن کر​
وہ زہر ذائقہ انگبین رکھتا تھا​
گُزرنے والے نہ یوں سرسری گزر دل سے​
مکاں شکستہ سہی پر مکین رکھتا تھا​
وہ جوہری نہ رہا اب اسے کہاں ڈھونڈیں
جو لفظ لفظ میں درّ ثمین رکھتا تھا
وہ عقلِ کل تھا بھلا کس کی مانتا محسن​ؔ
خیال خام پہ پختہ یقین رکھتا تھا​


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام