یہ سیل بے رنگ آنسوؤں کا فضول ہے لاکھ بار آئے

غزل| مولانا عامرؔ عثمانی انتخاب| بزم سخن

02/ جنوری 1975ء کو بھٹکل کرناٹک کے مشاعرے میں پڑھی گئی غزل

یہ سیل بے رنگ آنسوؤں کا فضول ہے لاکھ بار آئے
بنے گا موتی وہ اشکِ رنگیں لہو سے جو ہم کنار آئے
چمن کے دیدہ وروں کو یارو ہنسی نہ کیوں بار بار آئے
میں فصلِ گل اس کو کہہ رہا ہوں خزاں کو بھی جس سے عار آئے
وفا تو کانٹوں کی سر زمین ہے یہاں وہی جاں نثار آئے
سکون میں جس کو بے کلی ہو تڑپ میں جس کو قرار آئے
چمن کے وہ خود پرست مالی جنھیں خزاں راس آ گئی ہے
وہ کس لئے آرزو کریں گے چمن میں فصلِ بہار آئے
درِ گلستاں پہ فصلِ گل کے حسین کتبے لگانے والو
ہمیں تو درکار ہے وہ موسم گلوں کو جو ساز گار آئے
متاعِ گلشن کچھ ایسے بانٹی مرے وفا دار دوستوں نے
نہ میرے دامن میں پھول پہنچے نہ ان کے دامن میں خار آئے
یہ کوئے جاناں ہے ہمصفیرو! عزیز ہو سر تو لوٹ جاؤ
ابھی تو آیا ہےصرف زنداں ابھی توقع ہے دار آئے
وفا کے ایوانِ مرمریں پر جلی قلم سے لکھا ہوا ہے
یہاں وہی سر فراز ہوگا جو سر کی بازی بھی ہار آئے
ہے رائگاں دوستو وہ ساعت رہے جو محرومِ جذب و مستی
وہ سانس قیمت میں کچھ نہیں ہے نہ جس سے پیغامِ یار آئے
خیالِ جاناں کی محویت میں کچھ ایسی چوٹیں بھی سہہ گیا ہوں
سنوں اگر اور کی زباں سے نہ خود مجھے اعتبار آئے
بہت ہی چھوٹی سی داستاں ہے ہماری صحرا نوردیوں کی
وہاں وہاں ہم برہنہ پا تھے جہاں جہاں خار زار آئے

یہ خوش نصیبی نہیں تو کیا ہے کہ اپنی مٹی لگی ٹھکانے
وہ سر تھا جو بارِ دوش عامرؔ کسی کے قدموں پہ وار آئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام