سفر ہے سہل مگر پھر بھی خوشگوار نہیں

غزل| مخمورؔ سعیدی انتخاب| بزم سخن

سفر ہے سہل مگر پھر بھی خوشگوار نہیں
کہ منزلوں کو مری میرا انتظار نہیں
یہ بھیڑ خود مری مجبوریوں کی شاہد ہے
یہاں کسی پہ مجھے کوئی اختیار نہیں
خدا ہی جانے کسے کس طرف بہا لے جائے
ہوا کے سیلِ رواں کا کچھ اعتبار نہیں
جھلس بھی دے مرے کھیتوں کو تیز دھوپ اگر
میں بادلوں کو پکاروں مرا شعار نہیں
میں سوچتا ہوں خریدار کیا بنوں تیرا
محبت ایک عبادت ہے کاروبار نہیں
بہت ہی خوب سہی شہر مصلحت کی فضا
مگر یہ کیسے کہوں میں کہ ناگوار نہیں
پلٹ پلٹ کے وہاں کس لئے ہم آتے ہیں
جہاں ہمارا کسی کو بھی انتظار نہیں
بساط ہی جب الٹ دی گئی تو پھر کیا ہے
کسی کی جیت نہیں اب کسی کی ہار نہیں
جہاں بھی جائے وہ محفل اسی کی محفل ہے
کوئی دیار اسے اجنبی دیار نہیں
تو جنگلوں کی طرف لوٹ جاؤ تم مخمورؔ
جو بستیوں کی فضا تم کو سازگار نہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام