کسی نے جب کرم سے اک نگاہِ خاص فرمائی

نعت| مولانا محمد احمدؔ پرتابگڑھی انتخاب| بزم سخن

کسی نے جب کرم سے اک نگاہِ خاص فرمائی
مرے اجڑے ہوئے دل میں بہارِ جاں فزا آئی
نہ پائیں گے کبھی اہلِ جنوں کی شانِ یکتائی
کریں اہلِ خرد تا عمر چاہے خامہ فرسائی
سوا ان کے نہ اب دل میں ہے کوئی اور نہ آنکھوں میں
بحمد اللہ محبت نے عجب تاثیر دکھلائی
میں اس پر جان و دل سب کچھ کروں قرباں نہ کیوں آخر
کرم سے جس کے دردِ لا دوا کی بھی دوا پائی
سنیں یہ بات میری گوشِ دل سے جو میں کہتا ہوں
میں ان پر مر مٹا تب گلشنِ دل میں بہار آئی
ہوا جو بھی اسیرِ دامِ الفت دوستو اس کو
کوئی کہتا ہے دیوانہ ، کوئی کہتا ہے سودائی
جو ہے ہر حال میں راضی فدا ہے ان کی مرضی پر
بڑا خوش بخت ہے بخشی گئی ہے اس کو دانائی
نہ ہو کیوں ناز آخر اس کو اپنی خوش نصیبی پر
جو ان پر دل سے قرباں ہے جو ان کا دل سے شیدائی
جو مردے تھے انھیں بخشی حیاتِ جادواں تو نے
کوئی اگر ذرا دیکھے تری شانِ مسیحائی
نہ کیوں وہ مست ہو کر روز و شب رقصاں ہے آخر
محبت کی بجا کرتی ہے جس کے دل میں شہنائی
جو ہیں اہلِ خرد اس کو بھلا کیا خاک سمجھیں گے
لیے ہے کیف جنت عشق میں عاشق کی رسوائی
ہوا محسوس جیسے مل گئی کونین کی دولت
مقدر سے ترے پہلو میں جب ہم نے جگہ پائی
سنا جس نے وہی سو جان سے حق پر ہوا قرباں
کوئی دیکھے تو آ کر عاشقوں کی شانِ گویائی
عجب عالم ہوا اللہ اکبر اہلِ محفل کا
حدیثِ عشق کی احمدؔ نے جب بھی شرح فرمائی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام