الفت میں برابر ہے وفا ہو کہ جفا ہو

غزل| امیرؔ مینائی انتخاب| بزم سخن

الفت میں برابر ہے وفا ہو کہ جفا ہو
ہر بات میں لذت ہے اگر دل میں مزا ہو
ہم تم ہوں شبِ وصل اکیلے تو مزا ہو
ہم سے ہو ادب دور حیا تم سے جدا ہو
آئے جو مری لاش پہ وہ طنز سے بولے
اب میں ہوں خفا تم سے کہ تم مجھ سے خفا ہو
جو ان سے ادا ہوتی ہے کہتا ہے مرا دل
اس پردے میں اللہ کرے میری قضا ہو
مہمانِ چمن آج ہے میرا گلِ نازک
کہہ دو کہ دبے پاؤں رواں بادِ صبا ہو
گھبرا کے وہ بولے جو سنا شورِ قیامت
دیکھو مرے عاشق کا جنازہ نہ اٹھا ہو
آئے جو دمِ نزع کہا ہنس کے سدھارو
پریوں کو تو چاہا بہت اب حوروں کو چاہو
کیا شوق تھا مرقد سے قیامت میں پہنچنا
کہتا ہوا اب وعدۂ دیدارِ وفا ہو
جھنجھلا کے سزا دیں وہ مجھے ہاتھ سے اپنے
ایسی کوئی اے دل جو خطا ہو تو مزا ہو
ہر رنگ میں ہے یار نیا رنگ تمہارا
بے پردہ جو شوخی ہو تو در پردہ حیا ہو
وحشت کو مری ساتھ مرے دفن نہ کرنا
گھر خانہ خرابی کا مرے گھر سے جدا ہو
تو صورتِ دریا ہے حباب اہل جہاں ہیں
تیرا ہے تری راہ میں سر جس کا فدا ہو
ہنس ہنس کے چھری پھیر گلے پر مرے قاتل
آخر کی تڑپ ہے یہ کچھ اس میں تو مزا ہو
نیرنگیٔ حسن ان کی یہ کہتی ہے شبِ وصل
چتون میں شرارت ہو تو آنکھوں میں حیا ہو
رحم اس دلِ پر داغ پر اے الفتِ مژگاں
کانٹوں میں نہ کھینچ اس کو جو پھولوں میں تلا ہو
اس وہم سے گندھوانے میں چوٹی کی وہ جھجکے
مشاطہ کا بہروپ نہ عاشق نے بھرا ہو
اٹھ جاتے ہیں محفل سے جو ہو جاتی ہے گل شمع
ڈرتے ہیں کہ مجھ سے نہ ملی بادِ صبا ہو
کیا ربط ہے سینے سے کھنچے تیر تو پیکاں
ناوک سے جدا ہو مرے دل سے نہ جدا ہو
لایا مہِ نو بدر کا آئینہ بغل میں
اتنا بھی نہ اپنا کوئی مشتاقِ لقا ہو
کیا ہاتھ میں درکار امیرؔ ان کو ہے مہندی
چھو لیں گل عارض تو وہی رنگِ حنا ہو



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام