راستہ پر پیچ ہے اور ہم سفر کوئی نہیں

غزل| خلیل الرحمن اعظمیؔ انتخاب| بزم سخن

راستہ پر پیچ ہے اور ہم سفر کوئی نہیں
سب مرے ہم شکل ہیں مجھ سا مگر کوئی نہیں
ایک پرچھائی نہ جانے کب سے اپنے ساتھ ہے
جسم اس کے سینکڑوں ہیں اور سر کوئی نہیں
اس جہاں میں میرے ہونے کی گواہی کون دے
ایک ہجوم اور اس میں چشمِ معتبر کوئی نہیں
شہر کی سڑکوں پہ آخر کس نے جادو کر دیا
سائے ہی سائے یہاں ہیں اب شجر کوئی نہیں
اپنے گھر سے متّصل کل ایک گھر آباد تھا
دور تک اب دور تک دیوار و در کوئی نہیں

گردِ ہستی کی تہوں میں چھپ گئی تمثالِ مرگ
جسم و جاں کی منزلوں میں راہبر کوئی نہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام