عجب عالم ہے اس کا وضع سادی شکل بھولی ہے

غزل| امیرؔ مینائی انتخاب| سید ریّان

عجب عالم ہے اس کا وضع سادی شکل بھولی ہے
کبُھی جاتی ہے دل میں کیا رسیلی نرم بولی ہے
ادائیں کھیلتی ہیں رنگ تلوار اس نے کھولی ہے
لہو کی چلتی ہیں پچکاریاں مقتل میں ہولی ہے
بہار آئی چمن ہوتا ہے مالامال دولت سے
نکالا چاہتے ہیں زر گرہ غنچوں نے کھولی ہے
عجب ملبوس ہے ہم وحیشیوں کا رختِ عریانی
گریباں ہے نہ پردہ ہے نہ دامن ہے نہ چولی ہے
صراحی دور میں آتی ہے زاہد ہوں جو محفل میں
جھکا لیں اپنی آنکھیں دخترِ رز کی یہ ڈولی ہے

امیرؔ! اس بے وفا دنیا کی صورت پر نہ تم جاؤ
بڑی عیّار ہے مکار ہے ظاہر میں بھولی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام