جفا کو وفا سمجھیں کب تک بھلا ہم

غزل| حسرتؔ موہانی انتخاب| بزم سخن

جفا کو وفا سمجھیں کب تک بھلا ہم
اب ایسے بھی ان کے نہیں مبتلا ہم
عجب ہیں یہ راز و نیازِ محبت
خفا کیوں ہوئے وہ ہیں اس پر خفا ہم
نہ شیریں و لیلیٰ نہ فرہاد و مجنوں
زمانے میں اب ایک یا تم ہو یا ہم
یہ کیا منصفی ہے کہ محفل میں تیری
کسی کا بھی ہو جرم پائیں سزا ہم
ترے جور کا ہے تقاضہ کہ دیکھیں
ابھی کچھ دنوں اور راہِ قضا ہم
غریبوں سے کہتی ہے رحمت یہ ان کی
کہ ہیں بے نواؤں کے حاجت روا ہم
تری راہ میں مر مٹیں بھی تو کیا ہے
فنا ہو کے پائیں گے عیشِ بقا ہم
تری خوئے برہم سے واقف تھے پھر بھی
ہوئے مفت شرمندۂ التجا ہم
امیری میں ہو یا فقیری میں حسرتؔ
بہر حال ڈھونڈھیں گے ان کی رضا ہم


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام