کچھ عجب آن سے لوگوں میں رہا کرتے تھے

غزل| شاؔذ تمکنت انتخاب| بزم سخن

کچھ عجب آن سے لوگوں میں رہا کرتے تھے
ہم خفا رہ کے بھی آپس میں ملا کرتے تھے
اتنی تہذیبِ رہ و رسم تو باقی تھی کہ وہ
لاکھ رنجش سہی وعدہ تو وفا کرتے تھے
اُس نے پوچھا تھا کئی بار مگر کیا کہئے
ہم مزاجاً ہی پریشان رہا کرتے تھے
ختم تھا ہم پہ محبت کا تماشہ گویا
روح اور جسم کو ہر روز جدا کرتے تھے
ایک چپ چاپ لگن سی تھی ترے بارے میں
لوگ آ آ کے سناتے تھے سنا کرتے تھے
تیری صورت سے خدا سے بھی شناسائی تھی
کیسے کیسے ترے ملنے کی دعا کرتے تھے
اُس کو ہم راہ لئے آتے تھے میری خاطر
میرے غم خوار مرے حق میں برا کرتے تھے
زندگی! ہم سے ترے ناز اُٹھائے نہ گئے
سانس لینے کی فقط رسم ادا کرتے تھے

ہم برس پڑتے تھے شاؔذ اپنی ہی تنہائی پر
ابر کی طرح کسی در سے اُٹھا کرتے تھے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام