سمٹ سمٹ سی گئی تھی زمیں کدھر جاتا

غزل| شاؔذ تمکنت انتخاب| بزم سخن

سمٹ سمٹ سی گئی تھی زمیں کدھر جاتا
میں اس کو بھولتا جاتا ہوں ورنہ مر جاتا
میں اپنی راکھ کریدوں تو تیری یاد آئے
نہ آئی تیری صدا ورنہ میں بکھر جاتا
تری خوشی نے مرا حوصلہ نہیں دیکھا
ارے میں اپنی محبت سے بھی مکر جاتا
کل اس کے ساتھ ہی سب راستے روانہ ہوئے
میں آج گھر سے نکلتا تو کس کے گھر جاتا

میں کب سے ہاتھ میں کاسہ لیے کھڑا ہوں شاذؔ
اگر یہ زخم ہی ہوتا تو کب کا بھر جاتا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام