جو دل کا راز بے آہ و فغاں کہنا ہی پڑتا ہے

غزل| جگن ناتھ آزاؔد انتخاب| بزم سخن

جو دل کا راز بے آہ و فغاں کہنا ہی پڑتا ہے
تو پھر اپنے قفس کو آشیاں کہنا ہی پڑتا ہے
تجھے اے طائرِ شاخِ نشیمن کیا خبر اس کی
کبھی صیاد کو بھی باغباں کہنا ہی پڑتا ہے
یہ دنیا ہے یہاں ہر کام چلتا ہے سلیقے سے
یہاں پتھر کو بھی لعلِ گراں کہنا ہی پڑتا ہے
بہ فیضِ مصلحت ایسا بھی ہوتا ہے زمانے میں
کہ رہزن کو امیرِ کارواں کہنا ہی پڑتا ہے
کبھی مجبور کر دیتے ہیں جب آدابِ صحرائی
تو صحرا کو حریفِ گلستاں کہنا ہی پڑتا ہے
مروت کی قسم تیری خوشی کے واسطے اکثر
سرابِ دشت کو آبِ رواں کہنا ہی پڑتا ہے
بھرے بازار میں جب کوئی بھی گاہک نہیں ملتا
تو پھر ہیرے کو جنسِ رائیگاں کہنا ہی پڑتا ہے
زبانوں پر دلوں کی بات جب ہم لا نہیں سکتے
جفا کو پھر وفا کی داستاں کہنا ہی پڑتا ہے

نہ پوچھو کیا گزرتی ہے دل خود دار پر اکثر
کسی بے مہر کو جب مہرباں کہنا ہی پڑتا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام