نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا

غزل| میرا جؔی ثناء اللہ انتخاب| بزم سخن

نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا
کیا بھولا کیسے بھولا کیوں پوچھتے ہو بس یوں سمجھو
کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بھول گیا
کیسے دن تھے کیسی راتیں کیسی باتیں گھاتیں تھیں
من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا
اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا شرمائی
دھندلی چھب تو یاد رہی کیسا تھا چہرہ بھول گیا
یاد کے پھیر میں آ کر دل پر ایسی کاری چوٹ لگی
دکھ میں سکھ ہے سکھ میں دکھ ہے بھید یہ نیارا بھول گیا
ایک نظر کی ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی
ایک نظر کا نور مٹا جب اک پل بیتا بھول گیا
سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ
لہر لہر سے جا سر پٹکا ساگر گہرا بھول گیا
اپنی بیتی جگ بیتی ہے جب سے دل نے جان لیا
ہنستے ہنستے جیون بیتا رونا دھونا بھول گیا
جس کو دیکھو اس کے دل میں شکوہ ہے تو اتنا ہے
ہمیں تو سب کچھ یاد رہا پر ہم کو زمانہ بھول گیا
کوئی کہے یہ کس نے کہا تھا کہہ دو جو کچھ جی میں ہے
میرا جیؔ کہہ کر پچھتایا اور پھر کہنا بھول گیا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام