غم کے بھروسے کیا کچھ چھوڑا کیا اب تم سے بیان کریں

غزل| میرا جؔی ثناء اللہ انتخاب| بزم سخن

غم کے بھروسے کیا کچھ چھوڑا کیا اب تم سے بیان کریں
غم بھی راس نہ آیا دل کو اور ہی کچھ سامان کریں
کرنے اور کہنے کی باتیں کس نے کہیں اور کس نے کیں
کرتے کہتے دیکھیں کسی کو ہم بھی کوئی پیمان کریں
بھلی بری جیسی بھی گزری ان کے سہارے گزری ہے
حضرتِ دل جب ہاتھ بڑھائیں ہر مشکل آسان کریں
ایک ٹھکانہ آگے آگے پیچھے پیچھے مسافر ہے
چلتے چلتے سانس جو ٹوٹے منزل کا اعلان کریں

میرؔ ملے تھے میرؔا جی سے باتوں سے ہم پہچان گئے
فیض کا چشمہ جاری ہے حفظ ان کا بھی دیوان کریں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام