ترکِ محبت کر بیٹھے ہم ضبط محبت اور بھی ہے

غزل| محسؔن نقوی انتخاب| بزم سخن

ترکِ محبت کر بیٹھے ہم ضبط محبت اور بھی ہے
ایک قیامت بیت چکی ہے ایک قیامت اور بھی ہے
ہم نے اُسی کے درد سے اپنے سانس کا رشتہ جوڑ لیا
ورنہ شہر میں زندہ رہنے کی اِک صورت اور بھی ہے
ڈوبتا سورج دیکھ کے خوش ہو رہنا کس کو راس آیا
دن کا دکھ سہہ جانے والو رات کی وحشت اور بھی ہے
صرف رتوں کے ساتھ بدلتے رہنے پر موقوف نہیں
اُس میں بچوں جیسی ضد کرنے کی عادت اور بھی ہے
صدیوں بعد اُسے پھر دیکھا دل نے پھر محسوس کیا
اور بھی گہری چوٹ لگی ہے درد میں شدّت اور بھی ہے
میری بھیگتی پلکوں پر جب اُس نے دونوں ہاتھ رکھے
پھر یہ بھید کھلا ان اشکوں کی کچھ قیمت اور بھی ہے

اُس کو گنوا کر محسنؔ اُس کے درد کا قرض چکانا ہے
ایک اذّیت ماند پڑی ہے ایک اذّیت اور بھی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام