زمانہ بھر کی نگاہوں میں جو خدا سا لگے

غزل| محسؔن نقوی انتخاب| بزم سخن

زمانہ بھر کی نگاہوں میں جو خدا سا لگے
وہ اجنبی ہے مگر مجھ کو آشنا سا لگے
نجانے کب مری دنیا میں مسکرائے گا
وہ ایک شخص کہ خوابوں میں بھی خفا سا لگے
عجیب چیز ہے یارو یہ منزلوں کی ہوس
کہ راہ زن بھی مسافر کو راہ بر سا لگے
دلِ تباہ ترا مشورہ ہے کیا کہ مجھے
وہ پھول رنگ ستارہ بھی بے وفا سا لگے
ہوئی ہے جس سے منور ہر ایک آنکھ کی جھیل
وہ چاند آج بھی محسنؔ کو کم نما سا لگے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام