تعزیرِ اہتمامِ چمن کون دے گیا

غزل| محسؔن نقوی انتخاب| بزم سخن

تعزیرِ اہتمامِ چمن کون دے گیا
مجھ کو گلاب جیسا کفن کون دے گیا
دیکھے جو خدّ و خال تو سوچا ہے بارہا
صحرا کی چاندنی کو بدن کون دے گیا
میری جبیں کی ساری لکیریں تیری عطا
لیکن تری قبا کو شکن کون دے گیا
تیرے ہنر میں خلقتِ خوشبو سہی مگر
کانٹوں کو عمر بھر کی چبھن کون دے گیا
جنگل سے پوچھتی ہے ہواوؤں کی برہمی
جگنو کو تیرگی میں کرن کون دے گیا
کس نے بسائے آنکھ میں اشکوں کے قافلے
بے گھر مسافروں کو وطن کون دے گیا
تجھ سے تو ایک پل کی مسافت کا ساتھ تھا
میرے بدن کو اتنی تھکن کون دے گیا
توڑا ہے کس نے نوکِ سناں پر سکوتِ صبر
لب بستگی کو تابِ سخن کون دے گیا

محسنؔ وہ کائناتِ غزل ہے اُسے بھی دیکھ
مجھ سے نہ پوچھ مجھ کو یہ فن کون دے گیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام