نظریں ملیں تو زیست کے نقشے بدل گئے

غزل| ڈاکٹر علیمؔ عثمانی انتخاب| بزم سخن

نظریں ملیں تو زیست کے نقشے بدل گئے
پلکیں جھپک نہ پائیں کئی دور چل گئے
تا زندگی چلے ہیں سلامت روی سے ہم
پروانے جلد باز تھے جلدی سے جل گئے
اُن کو تمہارے شہر کے پتھر نہ چھو سکے
جو اہلِ عشق دشت کی جانب نکل گئے
اس میکدے میں تم نے جو تقسیم کی شراب
ساغر اس شراب کے دنیا میں چل گئے
واعظ کے ہم ذرا بھی رہینِ کرم نہیں
ساقی نے جب سنبھلا ہمیں ہم سنبھل گئے
وہ سرمۂ بصیرتِ اہلِ چمن بنے
جو گل تمہارے پاؤں کے نیچے مسل گئے

خود ہم نے اُن کے بزم میں دیکھا ہے یہ علیمؔ
اکثر رقیب لے کے ہماری غزل گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام