دور کے نامۂ و پیغام میں کیا رکھا ہے

غزل| حفیظؔ جونپوری انتخاب| بزم سخن

دور کے نامۂ و پیغام میں کیا رکھا ہے
جی کو اک روگ لگاوٹ کا لگا رکھا ہے
اپنی صحبت کی بس اب موت سے ہوگی تعبیر
درد کا نام بھی ظالم نے دوا رکھا ہے
ہاتھ رکھ کر وہ میری دل کی تڑپ دیکھتے ہیں
آج اس لطف نے کچھ اور لٹا رکھا ہے
لاکھ سمجھاؤ سمجھنے کا نہیں سود و زیاں
دل کو دیوانہ محبت نے بنا رکھا ہے
وہ بھلے آپ کی باتوں کا جو دیتے ہیں جواب
ہم جو چپ ہیں تو ہمیں اور دبا رکھا ہے
حسرتیں اس کی دمِ نزع الگ ہوں مجھ سے
کیوں یہ مجمع میری بالیں پہ لگا رکھا ہے
اپنے گھر بیٹھے سنا کرتے ہیں سب بھید ان کے
خوب ہی ہم نے ندیموں کو ملا رکھا ہے
مر چکے ہوتے غمِ ہجر میں لیکن اب تک
تیرے ملنے کی تمنا نے جلا رکھا ہے
نالے اس کوچے میں کرتا ہوں تو فرماتے ہیں
دیکھنا شور یہاں کس نے مچا رکھا ہے
پوچھتے رہتے ہیں اک ایک سے وہ حال میرا
انھیں چالوں نے تو دیوانہ بنا رکھا ہے

ان کے ملنے کی نہ کی کون سی تدبیر حفیظؔ
آپ نے کوئی دقیقہ بھی اٹھا رکھا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام